admin – Sabiqooninst https://sabiqooninst.com sabiqooninst Sat, 27 Aug 2022 15:54:32 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.5.5 تعمیرِ انسانیت https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d8%aa%d8%b9%d9%85%db%8c%d8%b1%d9%90-%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7%d9%86%db%8c%d8%aa/ https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d8%aa%d8%b9%d9%85%db%8c%d8%b1%d9%90-%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7%d9%86%db%8c%d8%aa/#respond Sat, 20 Aug 2022 22:48:37 +0000 https://sabiqooninst.com/?p=23 تعمیرِ انسانیت Read More »

]]>
اس جہانِ رنگ و بو میں کروڑوں نہیں اربوں انسان زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مسلم بھی اور غیر مسلم بھی، نیک بھی اور بَد بھی، ظالم بھی آباد ہیں اور مظلوم بھی، جاہل افراد بھی موجود ہیں اور دانش مند بھی۔ مگر اس دَور میں نیکی کی بجائے بدی کا، عدل و انصاف کی بجائے ظلم و تشدّد کا اور امن و آشتی کی بجائے جہالت و بربریت کا غلبہ ہے۔ ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ بے حیائی اور فحاشی نقطۂ عروج تک پہنچی ہوئی ہے۔ اقدار مٹ رہی ہیں، عزتیں لٹ رہی ہیں اور عصمتیں داغدار ہو رہی ہیں۔ خصوصاً مسلمان قوم آج ذِلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی چلی جا رہی ہے۔ دیگر اقوام اسے تر نوالہ سمجھ کر ہڑپ کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ انسانیت خوابیدہ ہے، اسے بیدار کرنے کی ضرورت ہے، دل مردہ ہو چکے ہیں، ان میں زندگی کی لہر دوڑانا ناگزیر ہے، دل بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں، ان کا علاج از بس ضروری ہے۔

دل کو جسم انسانی میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے جو کیفیت دل کی ہوتی ہے اعمال اسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دل میں فساد و بربریت ہو تو اعمال سے یقیناً درندگی ٹپکے گی اور اس کے برعکس اگر دل میں امن و آشتی کے جذبات ہوں تو اعمال سے محبت و الفت کے زمزمے پھوٹیں گے۔ اسی لئے تو آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«اَلَا فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّه وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّه اَلَا وَھِيَ الْقَلْبُ »

کہ جسم انسانی میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو جسم کے تمام اعضاء درست کام کرتے ہیں۔ جب اس میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو تمام جسم میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔

خبردار! وہ گوشت کا ٹکڑا انسانی دل ہے۔

تعمیرِ انسانیت کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ دل میں زندگی پیدا کی جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟ کیا اس دل کو زندہ نہیں کہا جائے گا جو معمول کے مطابق حرکت کرتا ہو اور جو دوسرے اعضاء کو باقاعدگی سے خون پہنچاتا ہو؟ زندہ دلی اسی کا نام ہے تو پھر اس کائنات میں کس کا دل مردہ ہے؟

اس سوال کا جواب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ علامہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے افادات سے دوں گا۔ جس سے یہ چیز کھل کر سامنے آجائے گی کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟

وہ تہذیب الایمان میں لکھتے ہیں کہ:

”دل تین قسم کے ہیں۔ قلبِ سلیم (زندہ دل)، قلبِ میت (مردہ دل)، قلبِ مریض (بیمار دل)”

قلبِ سلیم یعنی زندہ دل کی تعریف انہوں نے ان الفاظ میں کی ہے:

«اَلَّذِيْ سَلِمَ مِنْ كُلِّ شَھْوَةٍ تُخَالِفُ اَمْرَ اللهِ وَنَھْيَه »

یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو ہر اس خواہش سے پاک ہو جو اللہ تعالیٰ کے حکمِ امتناعی اور اثباتی کے مخالف ہو۔

مزید برآں لکھتے ہیں:

«فَسَلِمَ مِنْ عَبُوْدِيَّةِ مَا سِوَاهُ مُخْلِصٌ لِلهِ مَحَبَّتِه وَخَوْفِه وَرَجَائِه وَالتَّوَكُّلِ عَلَيْهِ وَالْاِنَابَةِ اِلَيْهِ وَاِيْثَارِ مَرْضَاتِه فِيْ كُلِّ حَالٍ وَالتَّبَاعُدِ مِنْ سَخَطِه اِنْ اَحَبَّ اَحَبَّ فِي اللهِ وَاِنْ اَبْغَضَ اَبْغَضَ فِي اللهِ وَاِنْ اَعْطٰي اَعْطٰي لِلهِ وَاِنْ مَّنَعَ مَّنَعَ لِلهِ »

یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو اللہ رب العزت کی بندگی کے سوا ہر کسی کی بندگی سے محفوظ ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور ڈر۔ اسی سے امید اور اسی پر بھروسہ پورے اخلاص کے ساتھ پایا جائے جو ہر حالت میں اسی کے حضور جھکے، اسی کی رضا کو ترجیح دے۔ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے دور بھاگے۔ اگر کسی کو پسند کرے تو خدا کے لئے اور اگر ناپسند کرے تو بھی خدا کے لئے۔ اگر کسی کو دینے کا جذبہ پیدا ہو تو اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے اور اگر کسی کو نہ دینے کا ارادہ ہو تو بھی اسی کی مرضی کے مطابق۔

علاوہ ازیں زندہ دل میں یہ اوصاف بھی پائے جاتے ہیں مثلاً حیا، پاکیزگی، صبر و تحمل، شجاعت، غیرت، خودی، نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت۔

جس دل میں یہ خوبیاں پائی جائیں، اس میں ایک نور، ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا دل در حقیقت تجلیاتِ الٰہی کا مرکز ہوتا ہے۔ ایسے دِل پر انوارِ الٰہیہ کی بارش ہوتی ہے۔ اس حالت میں یہ محض ایک گوشت کا لوتھڑا نہیں ہوتا بلکہ نورانیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن جاتا ہے۔ جس سے محبت و الفت، امن و آشتی، رحمت و رافت، صبر و تحمل اور ہمت و شجاعت کے بخارات اُٹھتے ہیں اور رفعت و سربلندی کے بادل بن کر ہر سو پھیل جاتے ہیں۔ جن سے علم و حکمت اور عقل و دانش کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ مردہ دلوں کے لئے حیاتِ نو کا پیام لاتی ہے اور پیاسے دلوں کو سیراب کرتی ہے۔ چنانچہ زندگی کا صحیح معنوں میں لطف اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے سینے میں ایسا دل رکھتا ہے جو مذکورہ بالا خوبیوں سے متصف و مشرف ہو۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ ان میں سے کون کون سی چیزوں میں موجود ہے اور کون کون سی چیز سے دل محروم ہے۔ جو چیز موجود ہے اس کو مستقل بنایا جائے اور جس چیز سے محرومی ہے، اس کو پیدا کیا جائے ورنہ انسانیت کی تعمیر ممکن نہیں۔

آج مسلم قوم کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس معیار کا صاحبِ دل عنقا ہے۔ ہر سو جہالت و مردہ دلی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب تک یہ چیز ختم نہیں ہوتی اس قوم کو سرخروئی نصیب نہیں ہو سکتی۔ حافظ ابنِ قیمؒ نے تو مردہ دل انسانوں کو حقیقی مردوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ فرماتے ہیں:

«وَھٰذَا مِنْ اَحْسَنِ التَّشْبِيْهِ لِاَنَّ اَبْدَانَهُمْ قُبُوْرُ قُلُوْبِھِمْ فَقَدْ مَاتَتْ قُلُوْبُھُمْ وَقَبْرَتْ فِيْ اَبْدَانِھِمْ »

کہ یہ ایک بہترین تشبیہ ہے اس لئے کہ ان کے بدن ان کے دلوں کی قبریں ہیں۔ دل مر گئے ہیں اور انہیں ان کے ابدان میں دفن کر دیا گیا ہے۔

یہاں پر مردہ دلی سے مراد یہ نہیں کہ ان دلوں کی حرکت یا دھڑکن بند ہو گئی ہے بلکہ اس سے مراد وہ دل ہیں جن میں مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز نہ پائی جائے، جن پر جہالت و نحوست کی تہیں جمی ہوں اور جن میں زندگی پیدا کرنا صرف اسی طور ممکن ہے کہ مذکورہ اوصاف ان میں بتدریج پیدا کیے جائیں۔

آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:

”جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے بعینہٖ انسانی دل بھی زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا، یا رسول اللہ ﷺ! دل کو صیقل کرنے یا اسے جلا بخشنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ ربّ العزت کا تصور اور ہر آن اس کی یاد دلوں کو جلا بخشتی ہے اور ان میں نورانیت پیدا کرتی ہے۔”

غرضیکہ جو اپنی خوابیدہ انسانیت کو بیدار کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور بتدریج اصلاح کی کوشش کرے ورنہ بصورتِ دیگر انسان اور حیوان میں کوئی بنیادی فرق نہ ہو گا اور ایسا انسان ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ﴾ اور﴿اُوْلٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ﴾ کے زمرے میں آجائیگا۔

٭ تو کیا ہماری تخلیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور مر جائیں؟

٭ کیا اس کائنات میں ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟

٭ کیا ہمیں کسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت نہیں؟

٭ کیا ہم انسان ہیں؟ کیا ہم اشرف المخلوقات ہیں؟

٭ کیا ہمیں ”خلیفة الارض” بننے کا شرف حاصل ہے؟

٭ اگر ہے تو کیوں؟

مسلمانو! ذرا اپنے دلوں کا جائزہ لو۔ دماغوں سے سوچو اور میرے سوالات کا جواب دو۔

]]>
https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d8%aa%d8%b9%d9%85%db%8c%d8%b1%d9%90-%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7%d9%86%db%8c%d8%aa/feed/ 0
لبرلزم، الحاد اور اسلام https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d9%84%d8%a8%d8%b1%d9%84%d8%b2%d9%85%d8%8c-%d8%a7%d9%84%d8%ad%d8%a7%d8%af-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85/ https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d9%84%d8%a8%d8%b1%d9%84%d8%b2%d9%85%d8%8c-%d8%a7%d9%84%d8%ad%d8%a7%d8%af-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85/#respond Sat, 20 Aug 2022 22:40:36 +0000 https://sabiqooninst.com/?p=20 لبرلزم، الحاد اور اسلام Read More »

]]>
لبرلزم الحاد کی ایک خاص حد کو پہنچے بغیر ادھورا ہے۔ دونوں کے مابین سہولت کاری mutual facilitation   معلوم واقعہ ہے۔  کبھی نہ ہو گا کہ ان میں سے ایک معاشرے میں  آگے بڑھے تو دوسرا پیچھے رہ جائے۔ ایک ہی کشتی کے دو سوار؛ یہ پار لگیں گے (خدانخواستہ) تو دونوں، اور ڈوبیں گے تو (ان شاء اللہ) اکٹھے۔ لبرلزم کا حتمی نتیجہ یا غایت final destination   الحاد ہی ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں، لبرلزم الحاد کا ہراول ہے۔ ایک ایمانی معاشرے پر حملہ آور ہوتے وقت یہ دونوں بڑے طریقے سے آگے پیچھے آتے ہیں۔ ایک کچھ راستہ صاف کرتا ہے تو دوسرے کی پیش قدمی طوفانی رفتار سے ممکن ہوتی چلی جاتی ہے۔ دوسرا جیسے جیسے صورتحال پر حاوی ہوتا ہے پہلے کی پہنچ آگے تک بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایک بوتا ہے دوسرا کاٹتا ہے۔ دونوں کے مابین اِس ربط یا اِس ہم آہنگی کی نشاندہی دورِحاضر کے علمائے عقیدہ کے زبان و بیان میں کثرت سے ہوئی ہے۔

لبرلزم کی چھوڑی ہوئی کچھ ’خالی جگہیں‘ ایک معاشرے میں لازماً الحاد کو پُر کرنا ہوتی ہیں۔ یہ کام ایک الگ محور پر ماحول میں خودبخود ہو رہا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ ہو رہا ہے، اگر آپ نظر اٹھا کر صرف دیکھ لیں۔ ایک سیلاب جو آپ کا بہت کچھ بہا لے جانے کو ہے خصوصاً تعلیمی اداروں میں، جو آپ کے مستقبل کا ایک ’سافٹ ویئر‘ یا ایک نقشہ نما ہونا چاہئے۔ کمال تو یہ ہے کہ ہمارے بہت سے فُضَلاء پھر بھی انجان دکھائی دیتے ہیں۔ خصوصاً وہ اصحاب جن کا اِن تعلیم گاہوں میں روز آنا جانا ہے اور جہاں یہ ایک بھیانک تصویر بچشم سر ملاحظہ فرماتے ہیں۔ پھر بھی یہ اس جوڑ connection   کو جو لبرلزم اور الحاد کے بیچ ہے، ابھی تک کچھ لوگوں کا واہمہ سمجھتے ہیں! ادنیٰ تامل سے آپ یہ جان سکتے ہیں کہ دونوں پراجیکٹس ایک ہی ذہن کی پیداوار ہیں۔ یا ایک ہی پروگرام کی دو مختلف سطحیں۔ حتیٰ کہ ایک جگہ پر جا کر اِن دونوں میں فرق کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ (لبرلزم کی اگر کئی قسمیں ہیں تو الحاد کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ آپ جانتے ہیں ’خدا کے وجود کا انکار‘ الحاد کی کوئی واحد صورت نہیں)۔

لبرلزم اور الحاد کو الگ الگ پیش کرنے کی غیرمعمولی کوششیں ہمارے معاشرے میں بےشک ہیں؛ اور اس کے پیچھے کچھ وسیع و عریض مصلحتیں! آج جو شخص یہاں ’الحاد سے پاک لبرلزم‘ بیچ رہا ہے وہ یا تو مارکیٹنگ کا  گھاگ ہے جو مذہبی دنیا میں لبرلزم کے گاہک پیدا کرنے میں لگا ہے (عالم اسلام کی مشکل ترین مہم)۔ یا وہ ایک سادہ لوح شخص جو لبرلزم کی اس گھاگ مارکیٹنگ  کے متاثرین victims   میں آتا ہے۔ ہاں ان سادہ لوحوں میں ہمارے بہت سے بھائی ہو سکتے ہیں۔ اِن سے ہماری محبت اور اخوت ان شاء اللہ برقرار ہے جب تک یہ روئےزمین کے جملہ انسانوں کو نبی آخر الزمانﷺ کی اطاعت میں آنے کا ’’پابند‘‘ مانتے رہیں۔ جب تک یہ اس ’’پابندی‘‘ کو ’’لازم‘‘ ٹھہرائیں تب تک یہ صحیح لبرلسٹ تو ان شاء اللہ کبھی نہیں ہو سکتے بلکہ اسلام کا یہ معلوم عقیدہ مان کر تو یہ لبرل عقیدہ کے اصل الاصول ہی کے منکر ہوئے(تبھی ہمارا رشتۂ اخوت اِن کے ساتھ برقرار ہے)۔  ہاں اس کے بعد یہ ’لبرلزم‘ کی کیا توجیہ کرتے ہیں جس کی یہ وقتاًفوقتاً تحسین فرماتے ہیں، ہماری باٹم لائن (خدا کی عبادت اور محمدﷺ کی اطاعت کا روئےزمین کے جملہ انسانوں پر ’’فرض‘‘ اور binding   یعنی ’’پابندی‘‘ کا موجب ہونا) جب تک اس سے متاثر نہیں ہوتی تب تک وہ ہماری نظر سے ثانوی اہمیت کی بات ہے اگرچہ اِن کی وہ لبرلزم کی توجیہ یا تفہیم کتنی ہی غلط اور لبرلزم کی حقیقت سے کتنی ہی ہٹی ہوئی ہو۔ اس کےلیے ہمارے اصولِ اہل سنت میں ایک بہت رحمدل قاعدہ پایا جاتا ہے: “لَازِمُ الۡقَوۡلِ لَيۡسَ بِقَوۡلٍ”۔ یعنی ایک شخص کی بات سے محض لازم آجانے والی بات کو اس کی اپنی بات قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ اُس (لازم آنے والی) بات کا از خود قائل نہ ہو۔ (اِس رحمدل و مبنی بر عدل قاعدہ کی وضاحت ان شاء اللہ کسی اور موقع پر)۔ بہرحال اِس قاعدہ کی رُو سے ہم اپنے ان لاتعداد بھائیوں کےلیے ایک عذر رکھتے ہیں جو لبرلزم کی کسی دامِ ہمرنگِ زمیں تفسیر  Trickery  سے متاثر ہو بیٹھے تاہم اپنے اسلامی عقیدے (روئےزمین کے جملہ انسانوں پر محمدﷺ کی ’’اطاعت‘‘ میں آنے اور آپﷺ کی ایک ایک بات کا اعتقادی، عملی، سماجی، قانونی، دستوری،سیاسی ہر ہر سطح پر ’’پابند‘‘ ہونے کو فرض ماننا) سے دستبردار نہیں ہوئے۔ اِنہوں نے لبرلسٹ کی کسی چکنی چپڑی عبارت پر یقین کر  کے اُسے اسلامی عقیدہ کے منافی نہ ہونے کی سند دے ڈالی یا حتیٰ کہ لبرلزم کےلیے کلمۂ خیر بول دیا، جبکہ نبی آخرالزمانﷺ کی رسالت اور آپﷺ کی شریعت کی ایک ایک بات کا یہ بائنڈنگ سٹیٹس ہمارے اِن بھائیوں کے ہاں بحث اور اختلاف سے بالاتر رہا۔ جب تک اِن کا یہ عقیدہ برقرار، یہ ہم سے اور ہم اِن سے، کیونکہ اسلام محمدﷺ کی اطاعت کو واجب جاننے کا نام ہے۔

البتہ خود اس لبرلزم اور لبرلسٹ کےلیے کوئی نرمی رکھنا، جبکہ وہ روئےزمین کے ہر ذی نفس کو محمدﷺ کی اطاعت میں آنے کا پابند نہ مانے اور محمدﷺ کے ٹھہرائے ہوئے حلال کو جملہ انسانوں کے حق میں حلال، حرام کو حرام اور فرض کو فرض نہ ٹھہرائے، نیز اس لبرلزم کے پیچھے چلے آنے والے الحاد سے آنکھیں بند رکھنا جوکہ درحقیقت اس لبرلزم کا تتمہ addendum   ہے، ایک باخبر شخص کے حق میں ظلم عظیم ہے۔ شرک کی اس برہنہ دعوت کے  آڑے آنا وقت کا ایک فریضہ اور امت کی خیرخواہی کا ایک  لازمی تقاضا۔ جیسا کہ ہم دیکھ آئے، لبرل کو دراصل اِس دعوت ہی کے ساتھ پرخاش ہے کہ انسانوں پر اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت اور اطاعت فرض ٹھہرائی جائے، خصوصاً یہ کہ اِس عبادت اور اطاعت کی مفصل صورت جاننے کےلیے اُس کے بھیجے ہوئے رسولوں کا دامن تھامنا لازم اور ان کی ایک ایک بات ماننا اور اس کو دستور ٹھہرانا واجب binding  کر رکھا جائے۔  غرض نہ توحید کا لزوم اور نہ رسالت کا۔  بلکہ توحید اور رسالت کے (کرۂ ارض کے ہر شخص کے حق میں) اِس بائنڈنگ سٹیٹس کو منوانے کی دعوت کے ساتھ  قدم قدم پر لبرل کا الجھنا۔ خدا کا وہ مرتبہ اور مقام ہی جو آسمانی صحیفوں میں درج اور انسانی فطرت میں کندہ کر رکھا گیا ہے، یعنی اُس کا مطلق لائقِ عبادت اور واجبِ اطاعت ہونا اور اُس کے بھیجے ہوؤں کی ایک ایک بات کو binding   (’’پابندی‘‘ کا موجب) ماننا، اس (لبرل) کے ہاں ردّ ہے اور اس کے خلاف تحریک اٹھانا واجب۔

لبرلزم کے متعلق یہ درست نہیں کہ یہ تو صرف مذہب کا بزور نفاذ کرنے کے خلاف ہے، تاہم اگر مذہب کی کوئی بات’’اکثریتی منشا‘‘ majority will   کی راہ سے ’’ریاستی قوانین‘‘ میں ڈھلی ہو تو یہاں لبرلزم کو کوئی پرابلم نہیں۔ ایسی بات ہوتی تو لبرلرسٹوں کو پاکستان کے ان قوانین کے ساتھ بھلا کیا مسئلہ ہونا چاہئے تھا جو مذہب سے ماخوذ ہیں اور اکثریت سے پاس ہونے کی تمام شروط اور پروسیجر ’کامیابی‘ سے پاس کر آئے ہیں؟ مگر کسے نظر نہیں آ رہا کہ لبرلسٹ ایجنڈا کی ساری جنگ ہی اُن قوانین کے ساتھ ہے جن کا حوالہ یہاں پر دین اسلام ہے؟ اور کیا لبرلزم کی باتوں میں آیا ہوا ہمارا کوئی اسلامی بھائی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ لبرلزم یا لبرلسٹوں کو یہاں کے اسلامی قوانین کے ساتھ ہرگز کوئی مسئلہ نہیں؟ ساری جنگ تو اِسی ایک نقطے پر ہے! ریاستی قوانین میں پائی جانے والی ایک واضح معلوم ’’اسلامی بات‘‘ کو یہاں جیسے ہی کسی عدالتی یا انتظامی راہ سے ’عملدرآمد‘ کی ہوا تک لگتی ہے، لبرلسٹ سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ جیسےہی ریاست کا کوئی نیک اہلکار یہاں ’’دستور‘‘ یا ’’قانون‘‘ میں موجود کسی اسلامی بات کو لاگو کرنے کا عندیہ دیتا ہے یہاں کا لبرل ابلاغ اور دانشور حرکت میں آ جاتا اور ایسے کسی ’’ممکنہ‘‘ عدالتی یا انتظامی اقدام کے خلاف ایک مزاحمتی فضا بنانے لگتا ہے۔ اس صورتحال کو سمجھنے میں ہمارے اِن اسلامی بھائیوں کو آخر کیا مسئلہ ہے جو یہاں کے عام آدمی تک پر عیاں ہے؟ ’’مذہب‘‘ کو یہاں کی قومی اجتماعی سرگرمی سے باہر کرنا، لبرلزم کی یہ واضح انسپی ریشن inspiration  آخر کس پر مخفی ہے؟ اور اگر لبرلزم یہ ہے تو ’’اللہ اور رسول کے خلاف محاذآرا‘‘ ہونا آخر کس انسانی رویے کا نام ہے؟

’’اکثریتی منشا‘‘ majority will   اور ’’ریاستی قوانین‘‘ state laws   کی اطاعت کا حوالہ جو ایک لبرل بیانیہ میں ملتا ہے، مذہب کےلیے وہاں سے کچھ ’گنجائش‘ پانا اور لبرلزم کے ساتھ ایک مشترکہ روٹ پر جا چڑھنا ہمارے ان مذہبی حضرات کی خام خیالی ہے جو لبرلزم کےلیے نیک جذبات کے متمنی ہیں۔ ’’اکثریتی منشا‘‘ majority will   اور ’’ریاستی قوانین‘‘ state laws   کی اطاعت کا جو حوالہ ایک حقیقی لبرل دیتا ہے، اس کا سیاق اصل میں بالکل اور ہے۔ بےشک اس لبرل بیانیہ میں ایک گونہ تلبیس deception   ہے، جسے ’حالیہ مرحلہ‘ میں اس کی مجبوری سمجھیے، اور جوکہ بہت دیر تک شاید اسے لاحق نہ رہے، تاہم اس کی اِن پھسلن سے پُر عبارتوں کے باوجود اگر غور کر لیا جائے تو وہ اِن میں کچھ بہت متناقض inconsistent   نہیں ہے۔ لبرلزم کے متعلق ہمارے یہ خوش گمان بھائی جس بات کو نظرانداز کرتے ہیں وہ یہ کہ لبرلسٹ کے ہاں پہلے ریاست کا ایک ’’تصور‘‘ ہے اور وہ ہے دین سے کلی آزاد ریاست۔ اس کے بعد ریاست کا وہ ’’سٹیٹس‘‘ ہے جس کی رُو سے ریاست کے صادر کردہ ’’قوانین‘‘ وہ واحد چیز ہو سکتے ہیں جسے مخلوقِ خدا پر واجب الاتباع ٹھہرایا جائے۔ پس ایک لبرلسٹ جس وقت ریاست کے صادر کردہ قوانین کا اصولی ’’سٹیٹس‘‘ بیان کرتا ہے اس وقت ریاست کا لبرلسٹ ’’تصور‘‘ اس کے ہاں پوری طرح implied  ہوتا ہے، جسے وہ ایک دوسرے مقام پر کھل کر express   کرنے میں بھی ہرگز تردُّد نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ جب وہ اس دوسری سطح پر بات کرتا ہے تو وہ ان قوانین کو جن کا سرچشمہ اسلام ہے، غلط ٹھہرانے میں کوئی ابہام نہیں چھوڑتا اور ایسے ’اسلامی‘ قوانین کوختم کرنے کی آواز اٹھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ مگر ان میں سے ہر چیز کا اس کے ہاں اپنا اپنا محل ہے۔ لبرلزم کے یہ دو محور کچھ ایسے متناقض contradictory  نہیں۔ دراصل ہمیں چاہئے تھا کہ ایک نظریے کو ہم اس کی کلیت totality  میں لیں اور اس کے تمام سرے ملا کر اس کا ایک مجموعی مفہوم اخذ کریں اور پھر اس کی ہر جزوی یا ضمنی عبارت کو اس کے کلی عقیدے کے تحت لا کر تفسیر کریں۔

چنانچہ لبرلسٹ ان دو الگ الگ محوروں پر بیک وقت سرگرم ہے: وہ ریاست کی اس ’’حقیقت‘‘ کو بھی بیان کرنے میں کسر نہیں چھوڑتا  جس کے تحت وہ ریاست کو مذہب سے آزاد کرانے اور اس میں پائے جانے والے ’’اسلامی قوانین‘‘ کو ختم کروانے کے دوٹوک مشن پر ہے۔ جبکہ ایک دوسری سطح پر وہ ریاست کا یہ ایک اصولی سٹیٹس بھی واضح کر جاتا ہے کہ اگر کسی چیز کی اطاعت کا قلادہ وہ خدا کی مخلوق کے گلے میں چھوڑنے کا روادار ہو سکتا ہےتو وہ ریاست ہے (جو انسان دیوتا  کے اکثریتی منشا Human’s majority will   کے ظہور کا محل ہے)۔ لبرلسٹوں کا پورا بیانیہ دیکھیں تو کوئی شک نہیں رہتا کہ ایک صحیح معنیٰ میں واجبِ اطاعت ریاست وہی ہے اور صرف اُسی کا ایک ایک قانون سر آنکھوں پر رکھنے کا، جو ’’دین‘‘ کی پابندی اور ’’خدا‘‘ کی عبادت سے آزاد ہو۔ غرض یہ دو محور لبرل کے ہاں الگ الگ سطح پرجاری رہتے ہیں:

1.   انسانوں کا اپنی اجتماعی دستوری زندگی میں صرف اور صرف ریاست اور اس کے قوانین کا ’’پابند‘‘ ہونا۔

2.    مگر خود اس ریاست کا مذہب ایسی ہر قید سے ’’آزاد‘‘ ہونا۔

بلکہ لبرل عقیدہ کی سپرٹ اگر سامنے رکھی جائے تو ریاست اور اس کے قوانین کی قید تو وہ بامرِ مجبوری قبول کرتا ہے ورنہ اصل تو اس کے ہاں ’’فرد‘‘ کی آزادی ہے۔ البتہ اس ریاست کا ’’مذہب‘‘ سمیت ہر قید سے زیادہ سے زیادہ maximum   آزاد ہونا اس کے عقیدہ کا اصل الاصول ہے اور اس کے ہاں پائی جانے والی مطلق قدر absolute value ۔ یعنی دوسری بات اُس کے ہاں پہلی سے اہم تر ہے۔ یوں لبرل عقیدہ کا زور انسان کو ریاست کی اطاعت میں ’’لانے‘‘ پر اتنا نہیں جتنا کہ اس انسان اور اس کی ریاست کو خدا کی اطاعت سے ’’نکالنے‘‘ پر۔ جبکہ ہمارے بھائیوں کا یہ خیال کہ پہلی چیز میں یہ لبرل کے ساتھ ہوں گے تو دوسری چیز میں لبرل (اپنا اصل الاصول چھوڑ کر) شاید اِن کے ساتھ ہو گا! حالانکہ وہ دونوں چیزیں ایک خاص ترتیب اور ساخت construction   سے ہی لبرلزم کی تشکیل کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پہلی چیز کے بغیر تو لبرلزم کی بعض  نادر اقسام some rare species of Liberalism   پائی جا سکتی ہیں مانند انارکسٹ لبرلزم anarchist liberalism   جو ویسے معاشروں میں کم ہی پنپ سکا ہے اور خود لبرلز کی اکثریت اس کو رد کرتی ہے، تاہم دوسری چیز کے بغیر تو لبرلزم کا پایا جانا غیرمتصور ہے۔ ’’خدا‘‘ اور ’’ریاست‘‘ کے راستے الگ الگ ہونا.. بلکہ ’’خدا‘‘ اور انسان کی ’’اجتماعی ہیئت‘‘ ہی کے راستے الگ الگ ہونا..  لبرلزم کی مرکزی ترین حقیقت ہے۔  داد دینی چاہئے جو اس کو اسلام سے ہم آہنگ کر دکھائیں!

]]>
https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d9%84%d8%a8%d8%b1%d9%84%d8%b2%d9%85%d8%8c-%d8%a7%d9%84%d8%ad%d8%a7%d8%af-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85/feed/ 0
دین اسلام کی امتیازی خصوصیات https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d8%af%db%8c%d9%86-%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-%da%a9%db%8c-%d8%a7%d9%85%d8%aa%db%8c%d8%a7%d8%b2%db%8c-%d8%ae%d8%b5%d9%88%d8%b5%db%8c%d8%a7%d8%aa/ https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d8%af%db%8c%d9%86-%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-%da%a9%db%8c-%d8%a7%d9%85%d8%aa%db%8c%d8%a7%d8%b2%db%8c-%d8%ae%d8%b5%d9%88%d8%b5%db%8c%d8%a7%d8%aa/#respond Sat, 20 Aug 2022 22:29:12 +0000 https://sabiqooninst.com/?p=17 دین اسلام کی امتیازی خصوصیات Read More »

]]>
جس نے دین اسلام عمل کیا اوراس میں پاۓ جانے والے عقیدہ کواپنا عقیدہ بنایا اوراس پرعمل کیا تواسے بالفعل اس نعمت کی مقدارکا علم ہوگا جس میں وہ زندگی گزار رہا اوراسلام کے ساۓ میں رہ رہا ہے ، اس کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے چندایک کا ذکر کیا جاتا ہے :

1 – مسلمان صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتا ہے ، اس اللہ تعالی کے اچھے اچھے اسماء اوربلند صفات ہيں ، تومسلمان کا نظریہ اورقصد متحد ہوتا ہے اوروہ اپنے رب پربھروسہ کرتا جواس کا خالق ومالک ہے وہ اسی اللہ تعالی پرتوکل کرتا اوراسی سے مدد وتعاون اورنصرت تائيد طلب کرتا ، اس کا اس پرایمان ہے کہ اللہ تعالی ہرچيز پرقادر ہے ۔

وہ نہ توبیوی کا محتاج ہے اورنہ اسے اولاد کی ضرورت ہے ، اس نے آسمان وزمین کوپیدا کیا وہی مارنے والا اورزندگی دینےوالا ہے ، اوروہی خالق و رازق ہے جس سے بندہ رزق طلب کرتا ہے ، اللہ تعالی ہی دعاؤں کوسننے اورقبول کرنے والا ہے توبندہ اسے پکارتے ہوۓ قبولیت کی امید رکھتا ہے ۔

وہ توبہ قبول کرنے والا اوربڑا رحیم مہربان ہے توبندہ جب بھی کوئ گناہ کرتااوراپنے رب کی عبادت میں کوئ کمی و کوتاہی کربیٹھے تواسی کی طرف توبہ کرتا ہے ۔

وہ اللہ علم رکھنے والا اوربڑخبردار اورشہید ہے جس کے علم سے کوئ چيزغیب نہیں جونیتوں اورسب رازوں اورجوکچھ سینوں میں چھپا ہےاس سے واقف ہے ، توبندہ اپنے آپ پریا پھر مخلوق پرظلم کےساتھ گناہ کرتے ہوۓ شرم محسوس کرتا ہے اس لیے کہ اس کا رب اس پرمطلع ہے اوردیکھ رہا ہے ۔

مسلمان بندے کوعلم ہے کہ اس کا رب بڑا باحکمت ہے وہ عالم الغیب ہے توبندہ اس کے اختیار پربھروسہ کرتا اوراپنے بارہ میں اس کی تقدیرپرایمان رکھتا ہے ، اوراس کا اس پرایمان ہے کہ اس کا رب کسی پرذرہ برابر بھی ظلم نہيں کرتا ، اللہ تعالی نے اس کے بارہ جوبھی فیصلہ کیا اس میں ہی بہتری ہے اگرچہ اس کی حکمت سے بندہ ناواقف ہے ۔

2 – مسلمان پراسلامی عبادات کی اثراندازی :

نماز مسلمان اوراس کےرب کے درمیان رابطہ ہے جب مسلم نمازمیں خشوع وخصوع اختیاکرتا ہے تواسےسکون و اطمنان اورراحت کا احساس ہوتا ہے اس لیے کہ اس نے ایک قوی اللہ تعالی کی طرف رجوع کیا اوراس کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ۔

اسے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضي اللہ تعالی عنہ کوفرمایا کرتے تھے : اے بلال رضي اللہ تعالی عنہ ہمیں نمازکے ساتھ راحت پہنچاؤ ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوجبب بھی کوئ معاملہ لاحق ہوتا توآپ نماز کی طرف دوڑپڑتے ، اورجسے بھی کوئ مصیبت اورمشکل پیش اوراس نے نماز کا تجربہ کیا تواس نےاپنی اس مصیبت میں مدد وتعاون اورصبر محسوس کیا ، یہ کیوں نہ ہووہ تونماز کے اللہ رب العزت کا کلام تلاوت کررہا ہے ، اوراللہ رب العزت کی کلام تلاوت کرنے میں جواثر ہے اس کا مخلوق کی کلام پڑھنے میں اثرسے مقارنہ نہیں ہو سکتا ۔

اوراگر بعض نفسیاتی امورکے طبیبوں اورڈاکٹروں کی کلام میں راحت اورتخفیف ہے توپھر اللہ تعالی کی کلام کا کیا کہنا جو اس نفسیاتی مرضوں کےڈاکٹراور طبیب کا بھی خالق ہے ۔

اورجب ہم زکاۃ جوکہ ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے کی طرف دیکھتے ہیں تواسے نفسی بخل اورکنجوسی کی تطہیر پاتے ہیں جوکرم وسخاوت اورفقراء اورمحتاجوں کی مدد وتعاون کاعادی بناتی ہے ، اوراس کا اجرو ثواب بھی دوسری عبادات کی طرح روز قیامت نفع و کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے ۔

یہ زکاۃ مسلمان پردوسرے بشری ٹیکسوں کی طرح کوئ بوجھ و مشقت اورظلم نہيں ، بلکہ ہر ایک ہزار میں صرف پچیس ہیں جو کہ سچا اور صدق اسلام رکھنے والا مسلمان دلی طور پرادا کرتا ہے اوراس کی ادائيگي سے نہ توگھبراتا اورنہ ہی بھاگتا ہے حتی کہ اگر اس کے پاس لینے والا کوئ بھی نہ جاۓ تووہ پھربھی اسے ادا کرتا ہے ۔

اورروزے میں مسلمان اللہ تعالی کی عبادت کےلیے ایک وقت مقررہ کےلیے کھانے پینے اورجماع سے رک جاتا ہے ، جس سے اس کے اندر بھوکےاورکھانے سے محروم لوگوں کی ضرورت کے متعلق بھی شعورپیدا ہوتا ہے اوراس میں اس کےلیے خالق کی مخلوق پرنعمت کی یاد دہانی اور اجر‏عظیم ہے ۔

اوراس بیت اللہ کا حج جسے ابراھیم علیہ السلام نے بنایا جس میں اللہ تعالی کے احکامات کی پاپندی اوردعا کی قبولیت اورزمین کے کونے کونے سےآۓ ہوۓ مسلمانوں سے تعارف ہوتا ہے یہ بھی ایک عبادت اوررکن اسلام ہے ۔

3 – بلاشبہ اسلام نے ہرخیرو بھلائ کا حکم دیا اورہربرائ اورشر سے روکا ہے ۔

اسلام نے اچھے آداب اوراخلاق حسنہ کا حکم دیا ہے مثلا : صدق وسچائ ، حلم وبردباری ، رقت و نرمی ، عاجزي وانکساری ، تواضع ، شرم وحیاء ، عھدو وفاداری ، وقار و حلم ، بہادری و شجاعت ، صبر وتحمل ، محبت و الفت ، عدل و انصاف ، رحم ومہربانی ، رضامندی و قناعت ، عفت و عصمت ، احسان ، درگزرو معافی ، امانت و دیانت ، نیکی کا شکریہ اداکرنا ، اورغیض وغضب کوپی جانا ۔

اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ ، والدین سے حسن سلوک کیا جاۓ اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی جاۓ ، بے کس کی مدد وتعاون کیا جاۓ اورپڑوسی سے احسان کیا جاۓ ، یہ بھی حکم دیتا ہے کہ یتم اوراس کے مال کی حفاظت کی جاۓ اورچھوٹے بچوں پر رحم اوربڑوں کی عزت و توقیراوراحترام کیا جاۓ ۔

ملازموں اورغلاموں اورجانوروں سے نرم کےساتھ پیش آیا جاۓ ، راستے سے تکلیف دہ اشیاء کوہٹايا جاۓ ، اورلوگوں سے اچھی بات کی جاۓ اورطاقت ہونے کے باوجود ان سے عفو درگزرسے کام لیا جاۓ ۔

مسلمان بھائ کی نصیحت و خیرخواہی کی جاۓ ، اورمسلمانوں کی ضروریات کوپورا کیا جاۓ ، اورتنگ دست مقروض کواوروقت دیا جاۓ ، ایک دوسرے پرایثار کیا جاۓ ، اورغم خواری اور تعزیت کی جاۓ ، لوگوں سے ہنستے ہوۓ چہرے کے ساتھ ملا جاۓ ۔

اوریہ بھی حکم ہے کہ بے کس ومجبور کی مدد کی جاۓ ، مريض کی عیادت و بیمار پرسی کی جاۓ ، اورمظلوم کی مدد ونصرت کرنی ضروری ہے ، اپنے دوست و احباب کوتحفے تحائف اورھدیے دیے جائيں ، مہمان کی عزت واحترام اورمہان نوازی کی جاۓ ۔

میاں بیوی آپس میں اچھے طریقےسے زندگی گزاریں ، اورخاوند اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرے ان کی ضروریات پوری کرے ، سلام عام کریں ، اورگھروں میں داخل ہونے سے قبل اجازت طلب کریں تا کہ گھروالوں کی پے پردگی نہ ہو ۔

اور اگرچہ بعض غیرمسلم بھی ان میں سے بعض کام کرتے ہیں لیکن وہ یہ کام صرف عمومی آداب کے اعتبار سے کرتے جس میں انہیں اللہ تعالی کی جانب سے کوئ اجروثواب حاصل نہیں ہوتا اورنہ ہی انہیں روزقیامت کامیابی وکامرانی اورفلاح حاصل ہوگی ۔

اوراگرہم اسلام کی منع کردہ امورکی طرف آئیں توہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان میں ہی معاشرے اورافراد کی ہرمعاملہ میں مصلحت ہے اوربندے اوراس کے رب اورانسانوں کے آپس میں تعلقات کی مضبوطی وحمایت ہوتی ہے ، ذيل میں ہم اسی کی چند ایک مثالیں بیان کرتے ہيں تا کہ اس کی مزیدوضاحت ہوسکے :

اسلام نے اللہ تعالی کےساتھ شرک اورغیراللہ کی عبادت کرنے سے منع کیا ہے ، اس لیے کہ غیر اللہ کی عبادت شقاوت و بدبختی کا با‏عث ہے ، اوراسی طرح اسلام نے نجومیوں اورکاہنوں کے پاس جانے اوران کی باتوں کی تصدیق کرنے سےبھی منع کیا ہے

اوراسلام میں جادوکرنا بھی حرام ہے جس سے دوشخصوں کے درمیان یاتوجدائ ڈالی جاتی اوریا پھر ان میں محبت ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسلام اس سے بھی منع کرتا ہے کہ ستاروں اوربرجوں کے بارہ میں یہ اتعقاد رکھا جاۓ کہ یہ انسان کی زندگی پراثرانداز ہوتے ہیں اوراسی کی بنا پرمختلف حادثات رونما ہوتے ہیں ۔

اسلام نے زمانے کوگالی دینے سے بھی منع کیا ہے اس لیے کہ اللہ تعالی ہی اسے گردش میں لانے والا ہے ، اوراسلام بدفالی اورنحوست کا عقیدہ رکھنے سے منع کرتا ہے ۔

اسلام اعمال کوتباہ برباد کرنے سے بھی روکتا ہے ، جس طرح کہ اعمال کرتے وقت ریا کاری اوردکھلاوے کے لیے اوراحسان جتلاتے ہوۓ کا کرنا ۔

اسلام کسی سے سامنے جھکنے اوررکوع وسجود کرنے سے اورمنافقوں کی مجالس میں بیٹھنے اوران کے ساتھ محبت والفت کرنے سےبھی منع کرتا ہے اوراسی طرح آپس میں ایک دوسرے کولعن طعن کرنے یا اللہ کے غضب ا‎س کی آگ کے ساتھ کسی کولعنت کرنے سے بھی منع کرتا ہے ۔

اسلام میں یہ بھی منع ہے کہ کھڑے پانی میں پیشاب کیا جاۓ اورراستے اورلوگوں کے ساۓ اورپانی لینے والی جگہ میں قضاۓ حاجت کرنا بھی اسلام کے خلاف ہے ، اوراسی طرح اسلام یہ منع کرتا ہے کہ قضاۓ حاجت میں قبلہ رخ نہ ہوا جاۓ اورنہ ہی اس کی پیٹھ کرکے پیشاب وپاخانہ کیا جاۓ ۔

اسلام نےپیشاب کرتے وقت دائيں ہاتھ سے شرمگاہ پکڑنا بھی منع قرار دیا ہے ، اوریہ بھی منع ہے کہ قضاۓ حاجت کرنے والے کوسلام کیا جاۓ ، اورسوکراٹھنے والے کوہاتھ دھوۓ بغیر برتن میں ہاتھ ڈالنے سے منع کیا ہے ،۔

اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ طلوع شمس اورزوال اورغروب شمس کے وقت نفلی نمازادا نہ کی جاۓ اس لیے کہ سوج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے ۔

اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ جب سخت بھوک لگی ہواورکھانا بھی لگ چکا ہوتونماز نہ پڑھی جاۓ بلکہ پہلے کھانا کھا یا جاۓ ، اور اسی طرح پیشاب اورپاخانہ آیا ہوا ہوتو نماز پڑھنی منع ہے اس لیے کہ یہ سب کچھ نمازی کومشغول کرکے نماز کے مطلوبہ خشوع وخضوع کوختم کردے گا ۔

یہ منع ہے کہ نماز میں آواز اونچی کرکے دوسرے سوۓ ہوۓ لوگوں کوتکلیف دی جاۓ اوراپنے آپ کونیند اوراونگھ آرہی ہوتو تھجدکی نمازپڑھنا منع ہے بلکہ سونا بہتر ہے اورسوجاۓ اورپھراٹھ کرنماز ادا کرلے ، اورساری رات قیام کرنے سے بھی منع کیا گيا ہے ۔

یہ بھی منع ہے کہ نمازی وضوء ٹوٹنے کےشک سے ہی نماز ختم کردے بلکہ جب تک وہ آواز نہ سنے یا پھر بدبونہ سونگ لے نماز کوختم نہيں کرنا چاہيۓ ۔

اسی طرح اسلام یہ بھی منع کرتا ہے کہ مسجد میں خرید وفروخت کی جاۓ اورکسی گمشدہ چيزکا اعلان کیا جاۓ ، اس لیے کہ یہ اللہ تعالی کی عبادت اوراس کے ذکر کی جگہ ہے ، جس میں دنیاوی امورکرنے لائق اورصحیح نہیں ۔

اسلام نے یہ بھی منع کیا ہے کہ ایک دن کے ساتھ دوسرے دن کوورزہ رکھنے میں بغیر کھا ۓ پیۓ اورافطاری کیے ملا لیا جاۓ ، اوریہ بھی منع ہے کہ بیوی خاوند کی موجودگي میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھے ۔

قبروں پرعمارتیں بنانا اورقبریں پکی کرنا اورانہیں اونچی کرنا ان پربیٹھنا اوران کے درمیان جوتوں سمیت چلنا اوران پرچراغاں کرنا ان پرکتبے وغیرلکھ کرلگانا ، اوران پر مساجد تعمیر کرنا یہ سب کچھ منع ہے اورقبروں کوکھودنا ۔

اسلام میں نوحہ کرنا اورکپڑے پھاڑنا ، اورکسی میت کے مرثیے پڑھنا ، اورجاہلیت کی طرح کسی کے مرنے کی خبردینا منع ہے لیکن صرف موت کی خـبردینے میں کوئ حرج نہيں ۔

اسلام نے یہ منع کیا ہے کہ سود خوری کی جاۓ ، اورتمام ایسی خرید وفروخت جس میں دھوکہ فراڈ اورجہالت ہو منع ہيں ، خون ، شراب ، اورخنزیر کی خرید وفروخت اوربت فروشی منع ہے ۔

اورہروہ چیز جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے اسے کی کمائ‏ اورخرید وفروخت منع ہے ، اوراسی طرح وہ بیع نجش بھی حرام ہے وہ یہ ہے کہ صرف قیمت زیادہ کرنے کے لیے بولی دی جاۓ اوراسے خریدنے کا کوئ ارادہ نہ ہویہ بھی حرام اورمنع ہے جس کہ آج کل بہت ساری بولیوں میں ہوتا ہے ۔

سامان فروخت کرتے وقت اس کے عیب چھپانا بھی منع ہیں ، اوروہ چيزفروخت کرنی بھی منع ہے جس کا وہ ابھی مالک ہی نہیں بنا ، اورچيزکواپنے قبضہ میں کرنے سے قبل فروخت کرنا بھی منع ہے ۔

کسی بھائ کی فروخت پر اپنی چيزفروخت کرنی بھی منع ہے ، اوریہ بھی منع ہے کہ کسی کی خریدی ہوي کوخود خرید لے ، اوراپنے کسی مسلمان بھائ کے بھاؤ پربھاؤ‎ لگانا بھی منع ہے ۔

اورپھلوں کی صلاحت کے ظاہرہونے اوران کے پکنے اورتباہ ہونےسےنجات سے قبل بیچنا بھی منع ہے ، اوراسی طرح ماپ تول میں کمی کرنا بھی منع ہے ، اوراسی طرح ریٹ بڑھانے کےلیے زخيرہ اندرزی کرنا بھی منع ہے ۔

شراکت والی اشیاءمثلا زمین ، اورکھجوروں کا باغ وغیرہ میں شریک شخص کوبتاۓ بغیر دوسرا شخص اپنا حصہ فروخت نہیں کرسکتا ، اسلام نے یتیموں کامال کھانے سے بھی منع فرمایا ہے ۔

اسلام میں جوا کھیلنا اورلوگوں کا مال ودولت غصب کرنا ، رشوت لینا، اورلوگوں کا چھیننا اورباطل طریقے سے لوگوں کامال کھانا منع قرار دیا ہے ، اوراسی طرح لوگوں کامال ضائع کرنا بھی ناجائز ہے ۔

لوگوں کوان کی چيزوں میں کمی کرنا بھی منع ہے اورگری پڑی چيز چھپانا بھی منع ہے اوراسے اٹھانا بھی منع ہے لیکن وہ شخص جواس کا اعلان کرنا چاہے وہ اٹھا سکتا ہے ، ہرقسم کا دھوکہ فراڈ کرنا منع ہے ۔

قرض ادا نہ کرنے کی نیت سے قرض لینا جائزنہیں ، اورکسی مسلمان کے لیے اپنے کسی مسلمان بھائ کی کوئ بھی چیزاس کی اجازت اوررضا مندی کے بغیر لینی جائزنہیں ، اوراسی طرح سفارش کرنے کےلیے ھدیہ قبول کرنا بھی جائز نہيں ہے ۔

شادی نہ کرنا اوردنیاسے بالکل کٹ جانا جائزنہیں ، اوراسی طرح اپنے آپ کوخصی کرنا بھی جائزنہیں ہے ۔

اسلام نے ایک ہی نکاح میں دوبہنوں کواکٹھا کرنا منع کیا ہے ، اوریہ بھی منع ہے کہ ایک ہی نکاح میں بیوی اوراس کی پھوپھی ، اوربیوی اوراس کی خالہ کو جمع کیا جاۓ ، اس میں چھوٹی بڑی یا بڑی چھوٹی میں کوئ فرق نہيں ۔

اسی طرح اسلام نے نکاح شغار بھی منع کیا ہے وہ اس طرح کہ ایک شخص یہ کہے مجھے اپنی بیٹی یا بہن نکاح میں دے دو میں آپ کواپنی بیٹی یا بہن دیتا ہوں ، تویہ دوسری کے بدلہ اورمقابلہ میں ہوگی جوکہ ظلم اورحرام ہے ۔

اوراسلام نے نکاح متعہ بھی حرام کیا ہے ، نکاح متعہ میں دونوں طرف سے ایک مقررہ مدت تک ہوتا ہے اوریہ مدت پوری ہونے پرختم ہوجاتا ہے جس میں طلاق کی ضرورت نہیں ۔

اسی طرح اسلام نے بیوی سے حالت حیض میں مجامعت کرنے سے منع کیا ہے ، بلکہ اس کے طہرمیں غسل کے بعد مجامعت کرنی چاہيۓ ، اوربیوی سے دبر ( پاخانہ والی جگہ ) میں مجامعت کرنی حرام ہے ۔

اسلام میں یہ منع ہے کہ ایک ہی عورت سے ایک شخص کی منگنی پردوسرا شخص بھی منگنی کرلے ، دوسرے کواس وقت کرنی چاہیے جب پہلا اسے ترک کردے یا پھر اسے اجازت دے دے ۔

مطلقہ یا بیوہ عورت کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کرنا منع ہے ، اوراسی طرح کنواری سے بھی اجازت لینی ضروری ہے ، اسی طرح جاہلیت والی مبارکباد دینا منع ہے کہ اللہ آپ کوبیٹے دے ، اس لیے اہل جاہلیت بیٹیاں نا پسند کرتے تھے ۔

اسلام نے اس سے منع کیا ہے کہ وہ اپنے پیٹ میں پرورش پانے والے بچے کوچھپاۓ ، اوراسی طرح میاں اوربیوی کواپنے درمیان زوجگی کے تعلقات کودوسروں کے سامنے بیان کرنے سےمنع کیا گیا ہے ۔

بیوی کا خاوند کوتنگ کرنا منع ہے ، اوراسی طرح طلاق کوکھیل بنانا بھی منع ہے ، اورعورت کے لیے منع قراردیا گیا ہے کہ وہ خاوند سے دوسری بیوی کی طلاق طلب کرے ، یا پھرجس سے منگنی کی ہے اس ترک کروانے کی کوشش کرے ، مثلا عورت یہ مطالبہ کرے کہ پہلے اپنی بیوی کوطلاق دو توپھرمیں تم سے شادی کرتی ہوں ۔

بیوی کے لیے منع ہے کہ وہ خاوند کی اجازت کے بغیر اس کامال صدقہ کرے ، اسلام نے منع کیا ہے کہ عورت اپنے خاوند کا بستر چھوڑے ، اگروہ کسی شرعی عذر کےبغیر چھوڑتی ہے تو فرشتے اس پرلعنت کرتے ہیں ۔

اسلام اس سے منع کرتا ہے کہ مرد اپنے والد کی بیوی سے شادی کرے ، اسلام میں یہ بھی منع کیا ہے کہ کوئ‏ مرد کسی ایسی عورت سےمجامعت کرجسے کسی اورکا حمل ہو ، جماع میں آزاد بیوی کی اجازت کے بغیر عزل کرنا منع ہے ۔

اسلام میں منع ہے کہ خاوند سفرسے اچانک رات کواپنی بیوی کے گھر جاۓ ، لیکن اگر اس نے آنے کی اطلاع دے دی ہے توپھر کوئ حرج نہیں ۔

اسلام نے خاوند کوعورت کا مہر اس کی اجازت کے بغیر لینے سے منع کیا ہے ، بیوی کوتنگ کرنا تا کہ اس سے مال اینٹھا جا سکے یہ منع ہے ۔

عورتوں کوبے پردگی سے منع کیا گیا ہے ، عورت کے ختنہ میں مبالغہ کرنا بھی منع ہے ، بیوی خاوند کے گھرمیں کسی کوبھی خاوند کی اجازت کے بغیر داخل نہيں کرسکتی ، اس میں اس کی عام اجازت کا فی ہوگی جب کہ اس میں کوئ شرعی مخالفت نہ پائ جاۓ‌ ۔

اسلام والدہ اوراس کے بچے کے درمیان تفریق کرنے سے منع کرتا ہے ، اسلام بے غیرتی سے منع کرتا ہے ، اوراجنبی عورت کی جانب اچانک نظر کے علاوہ دیکھتے ہی رہے سے منع کرتا اوراسی طرح باربار دیکھنے سے بھی منع کرتا ہے ۔

اسلام میں مردارکھانے سے منع کیا گيا ہے چاہے وہ پانی میں ڈوب کرمرے یا گردن گھٹنے یا پھر گرنے سے اس کی موت واقع ہو ، اوراسی طرح خون بھی حرام ہے اورخنزیر کا گوشت بھی حرام ہے ، اوروہ جانوربھی حرام ہے جس پراللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہو ، اورجوبتوں یا پھر غیر اللہ کے لیے ذبح گيا ہو ۔

اسلام نے اس جانور کوبھی کھانے سے بھی منع کیا جوگندگی اورنجاست کھاتا ہے اور اسی طرح اس کا دودھ پینا بھی جائز نہیں ، اورہر کچلی والا جانور کھانا منع ہے ، اورپرندوں میں سے ذومخلب یعنی جوپنجے کے ساتھ شکارپرجھپٹے وہ حرام ہے ۔

گدھے کا گوشت بھی حرام ہے ، اورچوپائیوں تنگ کرنا حتی کہ وہ مر جاۓ اس سے بھی منع کیا گیا ہے یا اسے چارہ نہ ڈالیں حتی کہ وہ مرجاۓ اس سے بھی منع کیا گیا ہے ، اوردانتوں اورناخنوں سے ذبح کرنا بھی منع ہے ، یا یہ کہ ایک جانورکی موجودگی میں دوسرے کو ذبح کیا جاۓ ، اوراس کے سامنے چھری تیز کرنے سے بھی منع کیا گيا ہے ۔

لباس اورزیائش و زینت :

لباس میں اسراف وفضول خرچی سے منع کیا گیا ہے اورمرد کے لیے سونا پہننا حرام ہے ، اسلام نے ننگے ہوکرچلنے سے منع کیا ہے اوراسی طرح ران ننگی کرنے سے بھی منع کیا ہے ۔

کپڑے ٹخنے سے نیچے لٹکانا جائز نہيں ، اورنہ ہی تکبر کرتے ہوۓ زمین پرکھینچ کرچلنا چاہیے اورشہرت والا لباس بھی نہیں پہننا چاہیے ۔

اسلام میں جھوٹی گواہی دینا جائزنہیں ، اورپاکباز عورتوں پربہتان لگانا منع ہے ، اور اسی طرح بری لوگوں ہرغلط قسم کے بہتان اورتہمت لگانا بھی اسلام میں اجازت نہیں ۔

اسلام میں چغلی خوری اورعیب جوئ اوربرالقابات سے پکارنا حرام ہے ، اوراسی طرح غیبت اوردوسرے مسلمانوں کا مذاق اڑانا ، اورحسب ونسب میں فخرکرنا جائز نہيں ، اوراسی طرح کسی کے نسب میں طعن وتشنیع کرناصحیح نہیں ۔

اور اسی طرح اسلام نے سب وشتم اورگالی گلوچ اورفحش گوئ اور بدزبانی کرنی اورڈینگیں مارنیں ممنوع قرار دی ہيں ، اوراسی طرح برائ کا چرچا نہیں کرنا چاہیے مگر مظلوم اسے لوگوں کے سامنے بیان کرسکتا ہے ۔

جھوٹ بولنے سے روکا گیا ہے اورسب سے بڑا جھوٹ نیند کے بارہ میں ہے مثلا اپنی طرف سے ہی خوابیں بنا بنا کر بیان کی جائيں تا کہ اس سے فضیلت حاصل ہو اوریا پھرمالی فائدہ حاصل کیا جاسکے ، یاپھراپنے دشمن کوڈرانے دھمکانے کےلیے ۔

اورخود اپنے آپ کی تعریف کرنے سے بھی منع کیا گيا ہے ، اورسرگوشی کرنا بھی منع ہے وہ اس طرح کہ تین آدمیوں میں سے دو آپس میں سرگوشیاں نہ کریں اس لیے کہ تیسرا اس سے غمگين ہوگا ، اور اسی طرح مومن اورمسلمان آدمی اورجو لعنت کا مستحق نہیں اس پرلعنت کرنے سے بھی منع کیاگیا ہے ۔

فوت شدگان کوبرا کہنے اور ان پرسب وشتم کرنے سے منع کیا گیا ہے ، اوراسی طرع موت کی دعا کرنا یا کسی تکلیف کی بنا پرموت کی تمنا کرنا بھی منع ہے ، اسی طرح اپنے لیے اوراولاد اورخادم اورمال کے لیے بھی بددعا کرنی بھی جائز نہیں ہے ۔

اسلام میں دوسروں کے آگے سے اوربرتن درمیان سےکھانا اٹھا کرکھانا بھی ممنوع ہے ، بلکہ برتن کے کناروں اورسائڈوں سے کھانا چاہیے اس لیے کے درمیان میں برکت کانزول ہوتا ہے ، اوراسی طرح برتن کی ٹوٹی ہوئ جگہ سے پانی وغیرہ پینا بھی منع ہے تا کہ وہ نقصان نہ دے ۔

اورمشکیزے وغیرہ سے منہ لگا کربھی پینا صحیح نہیں اورپیتے وقت تین سانس میں پینا چاہیے اور اسی طرح پیٹ کے بل لیٹ کرکھانا منع ہے اور ایسے دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا بھی منع ہے جہاں پرشراب نوشی ہورہی ہو ۔

سوتے وقت چولہے میں آگ جلتی چھوڑنا بھی منع ہے ، اوراسی طرح ہاتھ میں کھانے وغیرہ کی چکناہٹ لگي ہوئ توبغی دھوۓ سونا منع ہے ، اورپیٹ کے بل سونا بھی صحیح نہيں ، اورانسان کوگندی اوربری خواب بیان کرنے یا اس کی تعبیر کرنے سے بھی روکا گیا ہے ، کیونکہ یہ شیطانی خواب ہے ۔

کسی کوناحق قتل کرنا حرام ہے ، اوراسلام نے فقروغربت کے سبب سے اولاد کوقتل کرنا بھی حرام قراردیا ہے ، اورخودکشی بھی حرام ہے ، اسلام زناکاری اورلواطت ، اورشراب نوشی کرنے شراب کشیدکرنے اوراس کی خرید وفروخت بھی منع کرتا ہے ۔

اسلام اس سے بھی منع کرتا ہے کہ اللہ تعالی کوناراض کرکے لوگوں کوراضي کیا جاۓ ، اوروالدین کوبرا کہنے اورانہيں ڈانٹنے سے منع کیا ہے ، اوراسلام اس سے منع کرتا ہے کہ اولاد اپنے والد کوچھوڑ کرکسی اورکی طرف نسبت نہ کرے ۔

اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ کسی کوآگ کا عذاب نہ دو ، اورنہ ہی کسی زندہ یا مردہ کوآگ میں جلاؤ ، اوراسلام مثلہ کرنے سے بھی منع کرتا ہے ، ( مثلہ یہ ہے کہ قتل کرنے کے بعد اس کے مختلف اعضاء کاٹ کراس کی شکل بگاڑ ی جاۓ ) اسلام اس سے بھی منع کرتا ہے ۔

اسلام باطل اورگناہ ومعصیت ودشمنی میں تعاون کرنے سے منع کرتا ہے ، اوراللہ تعالی کی معصیت میں کسی ایک کی بھی اطاعت بھی منع ہے ، اوراسی طرح جھوٹا حلف اورجان بوجھ کر جھوٹی قسم سے بھی منع کیا گيا ہے ۔

اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ کس کی بھی کوئ بات اس کی اجازت کے بغیر سنی جاۓ ، اوران کی بے پردگی کی جاۓ ، اسلام اسے بھی جائز نہيں کرتا کہ کسی چيز کی ملکیت کا جھوٹا دعوی کیا جاۓ ۔

اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ کوئ اس کی کوشش کرے کہ اس کی ایسے کام پرتعریف کی جاۓ تواس نے کیا بھی نہ ہو ، اسلام نے یہ بھی اجازت نہیں دی کہ کسی کے گھرمیں اس کی اجازت کے بغیر جھانکا جاۓ ۔

اسلام فضول خرچی اوراسراف سے منع کرتا ہے ، کسی گناہ پرقسم کھانا بھی منع ہے ، صالح مرد اورعورتوں کے بارہ میں تجسس اوران کے بارہ میں سوء ظن کرنا بھی منع ہے ، اسلام نے آپس میں ایک دوسرے سے حسد وبغض اورحقد وکینہ رکھنے سے منع کیا ہے ۔

اسلام باطل پراکڑنے سے منع کرتا ہے ، اورتکبر، فخر اوراپنے آپ کوبڑا سمجھنا بھی منع ہے ، خوشی میں آ کراکڑنا بھی منع ہے ، اسلام نے مسلمان کوصدقہ کرنے کے بعد اسے واپس لینے سے منع کیا ہے وہ اس کےلیے خریدنا بھی جائز نہیں ۔

اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ مزدور سے مزدوری کروا کراس کی اجرت ادا نہ کی جاۓ ، اسلام نے اولاد کوعطیہ دینے میں عدل کرنے کا حکم دیا ہے اس میں کسی کوکم اورکسی کوزيادہ دینا منع ہے ۔

اسلام یہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ اپنے سارے مال کی وصیت کردی جاۓ اوراپنے وارثوں کوفقیر چھوڑدیا جاۓ ، اوراگر کوئ ایسے کربھی دے تواس کی یہ وصیت پوری نہیں کی جاۓ گي بلکہ صرف وصیت میں تیسرا حصہ دیا جاۓ گا اورباقی وارثوں کا حق ہے ،

اسلام نے پڑوسی کوتکلیف دینے سے منع کیا ہے ، اوروصیت میں کسی کوتکلیف پہنچانے سے منع کیا گيا ہے ، اسلام نے یہ بھی منع کیا ہے کہ کوئ مسلمان دوسرے مسلمان سے شرعی عذر کرے بغیر تین دن سےزیادہ ناراض نہیں رہ سکتا ، اسلام نے چھوٹی چھوٹی کنکریاں بھی ناخنوں سے ساتھ پھینکنے سے منع کیا ہے اس لیے کہ اس سے اذیت پہنچتی ہے مثلا کسی کی آنکھ وغیرہ میں جا لگے توآنکھ ضائع ہونےاوردانت ٹوٹنے کا اندیشہ ہے ۔

اسلام نے واث کے وصیت کرنا منع کیا ہے اس لیے کہ اللہ تعالی نے وارث کواس کا حق دیا ہے ، اسلام پڑوسی کوتکلیف دینے سے بھی منع کرتا ہے ، کسی مسلمان کواسلحہ اور چھری وغیرہ سے اشارہ کرنا منع ہے ۔

اسلام نے ننگی تلوار سونت کرگھومنے سے منع کیا ہے اس لیے کہ ايذا پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے ، بیٹھے ہوۓ دوشخصوں کے درمیان بغیراجازت تفریق کرنا منع ہے ،اگرکوئ شرع ممانعت نہ ہوتو ھدیہ واپس کرنا بھی منع ہے ۔

بے وقوفوں کومال دینے سے منع کیا گيا ہے ، یہ منع ہے کہ اللہ تعالی نے جوایک دوسرے کوفضيلت دے رکھی ہے اس سے چھن کراسے ملنے کی تمنا کرنے سے بھی منع کیا ہے ، صدقات وخیرات کواحسان جتلا کراوراذیت دے کرضائع کرنے سے بھی روکا گيا ہے ۔

اسلام گواہی چھپانے سے بھی منع کرتا ہے ، یتیم کوڈانٹنا اورسوال کرنے والے کودھتکارنا منع ہے ، گندی اورخبیث دوائیوں سےعلاج کرنا منع کیا گيا ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے حرام کردہ اشیاء میں شفانہیں رکھی ، اسلام جنگ میں بچوں اورعورتوں کوقتل کرنے کی اجازت نہيں دیتا ۔

کسی کوبھی کسی دوسرے پرفخرکرنے کی اجازت نہيں ، وعدہ خلافی کرنا منع ہے ، امانت میں خیانت بھی نہیں کرنی چاہيۓ ، ضرورت کے بغیر لوگوں سے مانگنا منع ہے ، مسلمان پراپنے مسلمان بھائ کوخوفزدہ کرنا منع اوربطورمذاق یا حقیقی طور پرکسی کا مال لینا اوراٹھانا جائز نہیں ۔

ھبہ اورعطیہ کی ہوئ چيزواپس نہیں لی جاسکتی ، صرف والد اپنے بیٹے کودیا گیا عطیہ واپس لے سکتا ہے ، تجربہ کے بغیر حکمت وعلاج کرنا منع ہے ، چیونٹی ، شھد کی مکھی ، اورھد ھد قتل کرنا منع ہے ، اسلام نے کسی آدمی کودوسرے آدمی اور کسی عورت کودوسری عورت کی شرمگاہ دیکھنے کی اجازت نہيں دی ۔

صرف جان پہچان والے سے سلام لینا منع ہے ، بلکہ جاننے والوں اورجنہیں نہیں جانتے انہیں بھی سلام کرنا ضروری ہے ، اورقسم کونیکی اوراپنے درمیان حائل نہيں کرنا چاہیے ، بلکہ جس میں بھی بھلائ اورخیر ہووہ کام کرلیا جاۓ ،اورقسم کا کفارہ ادا کردیا جاۓ ۔

غصہ کی حالت میں کسی کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے ، کسی ایک فریق کی بات سن کربھی فیصلہ کرنا منع ہے ، آدمی کا اپنے ہاتھ میں کوئ ننگاتیزدھارالہ لے کربازار میں چلنا بھی منع ہے ، کسی کواس کی جگہ سے اٹھا کرخوداس کی جگہ بیٹھنا بھی منع ہے ، کسی کے پاس سے بغیر اجازت اٹھنا بھی منع ہے ۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے حکم اورمنھیات ہیں جوانسان کی سعادت کے لیے نازل کیے گۓ ہيں توکيا آپ نے آج تک ایسا کوئ دین دیکھا ہے ؟

آپ جواب کوایک بار دوبارہ پڑھیں اورپھراپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا یہ خسارہ اورنقصان نہیں کہ آپ ابھی تک اس کے پیروکاروں میں شامل نہیں ؟

اللہ سبحانہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

اورجوبھی اسلام کے علاوہ کوئ اوردین تلاش کرے گا اس سے اس کا وہ دین قبول نہیں کیا جاۓ گا اوروہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا آل عمران ( 85 ) ۔

اورآخر میں ہم آپ کے لیے اوراس جواب کے ہرپڑھنے والے کے لیے توفیق اورصحیح اورسیدھے راہ پرچلنے اورحق کی اتباع و پیروی کی دعا کرتے ہیں ، اللہ تعالی ہماری اورآپ کی ہربرائ اورشرسے حفاظت فرماۓ آمین ۔

واللہ اعلم .

ا

]]>
https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d8%af%db%8c%d9%86-%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-%da%a9%db%8c-%d8%a7%d9%85%d8%aa%db%8c%d8%a7%d8%b2%db%8c-%d8%ae%d8%b5%d9%88%d8%b5%db%8c%d8%a7%d8%aa/feed/ 0
یونیورسٹی میں حاضر ہوئے بغیر حاضری لگوانے سے بعد میں تنخواہ پر اثر بھی ہو گا؟ https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%db%8c%d9%88%d9%86%db%8c%d9%88%d8%b1%d8%b3%d9%b9%db%8c-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%ad%d8%a7%d8%b6%d8%b1-%db%81%d9%88%d8%a6%db%92-%d8%a8%d8%ba%db%8c%d8%b1-%d8%ad%d8%a7%d8%b6%d8%b1%db%8c-%d9%84%da%af%d9%88/ https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%db%8c%d9%88%d9%86%db%8c%d9%88%d8%b1%d8%b3%d9%b9%db%8c-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%ad%d8%a7%d8%b6%d8%b1-%db%81%d9%88%d8%a6%db%92-%d8%a8%d8%ba%db%8c%d8%b1-%d8%ad%d8%a7%d8%b6%d8%b1%db%8c-%d9%84%da%af%d9%88/#respond Sat, 20 Aug 2022 22:18:02 +0000 https://sabiqooninst.com/?p=15 یونیورسٹی میں حاضر ہوئے بغیر حاضری لگوانے سے بعد میں تنخواہ پر اثر بھی ہو گا؟ Read More »

]]>

سوال: یونیورسٹی کی طالبات میں ایک بری عادت پھیل چکی ہے کہ طالبات ہر لیکچر میں اپنی حاضری کے دستخط دوسروں سے کرواتی ہیں، کیا یہ جھوٹ میں شامل ہو گا؟ اور کیا اگر وہ یونیورسٹی سے گریجویشن کر جاتی ہے تو اسے ملنے والی تنخواہ بھی حرام ہو گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

غیر حاضر سہیلی کی طرف سے طالبہ کا حاضری کے دستخط کرنا جھوٹ، دھوکا دہی، اور خیانت میں شامل ہوتا ہے ، اور یہ سب چیزیں حرام ہیں۔

جیسے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم ہمیشہ سچ بولو؛ کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اور نیکی جنت کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔ انسان ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک وہ اللہ تعالی کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے۔ تم ہمیشہ جھوٹ سے بچو؛ کیونکہ جھوٹ بدی کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اور بدی جہنم کی جانب لے جاتی ہے۔ انسان ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک وہ اللہ تعالی کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (5743) اور مسلم : (2607)نے روایت کیا ہے۔

اور اگر حاضری ڈگری پر درج کیے جانے والے نمبروں پر بھی مؤثر ہوتی ہے، اور اسی کی بنیاد پر طالبات پاس اور فیل ہوتی ہیں، اور گریڈ کی بنیاد یہی نمبر ہوتے ہیں تو پھر اس طالبہ نے وہ نمبر یا گریڈ حاصل کیا ہے جس کی یہ مستحق نہیں تھی اور اسی کی بنا پر اسے ملازمت ملی ہے تو یہ طالبہ انتہائی خطرناک صورت حال میں ہے؛ کیونکہ باطل کی بنیاد پر حاصل کی گئی چیز بھی باطل ہوتی ہے، مثلاً: غیر حاضری کی وجہ سے اس طالبہ کو ممتاز درجہ نہیں مل سکتا تھا، اور ملازمت صرف ممتاز طالبہ کو ہی مل سکتی تھی تو اس صورت میں اس طالبہ کو ملنے والی ملازمت حرام طریقے سے حاصل ہوئی ہے۔

اس لیے ہم ان تمام طالبات کو تاکیدی نصیحت کریں گے کہ حاضری لگاتے ہوئے سچائی اپنائیں، جھوٹ اور دھوکا دہی چھوڑ دیں تا کہ آپ کو گناہ نہ ہو، اور بعد میں حرام طریقے سے ملنے والی ملازمت سے آپ کو تحفظ ملے، اور یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ گناہ کے ارتکاب میں کسی قسم کی مروت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اللہ تعالی سب کو اپنے پسندیدہ اور رضا کے موجب کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم

]]>
https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%db%8c%d9%88%d9%86%db%8c%d9%88%d8%b1%d8%b3%d9%b9%db%8c-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%ad%d8%a7%d8%b6%d8%b1-%db%81%d9%88%d8%a6%db%92-%d8%a8%d8%ba%db%8c%d8%b1-%d8%ad%d8%a7%d8%b6%d8%b1%db%8c-%d9%84%da%af%d9%88/feed/ 0
عورتوں كى طرف ديكھنے كى بيمارى والا شخص كيا كرے https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d8%b9%d9%88%d8%b1%d8%aa%d9%88%da%ba-%d9%83%d9%89-%d8%b7%d8%b1%d9%81-%d8%af%d9%8a%d9%83%da%be%d9%86%db%92-%d9%83%d9%89-%d8%a8%d9%8a%d9%85%d8%a7%d8%b1%d9%89-%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%a7-%d8%b4%d8%ae%d8%b5/ https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d8%b9%d9%88%d8%b1%d8%aa%d9%88%da%ba-%d9%83%d9%89-%d8%b7%d8%b1%d9%81-%d8%af%d9%8a%d9%83%da%be%d9%86%db%92-%d9%83%d9%89-%d8%a8%d9%8a%d9%85%d8%a7%d8%b1%d9%89-%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%a7-%d8%b4%d8%ae%d8%b5/#respond Sat, 20 Aug 2022 21:48:08 +0000 https://sabiqooninst.com/?p=13 عورتوں كى طرف ديكھنے كى بيمارى والا شخص كيا كرے Read More »

]]>

سوال : مجھے اكثر بےپردہ عورتوں كو ديكھنے كى بيمارى ہے اكثر طور پر ميں اپنے اوپر كنٹرول نہيں كر سكتا، مجھے كوئى نصيحت كريں كہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

:جواب کا متن

الحمد للہ.

جسے كوئى زہريلا زخم ہو جائے تو اسے وہ كام كرنا چاہيے جس سے زہر كا اخراج ہو، زخم ترياق اور مرہم سے صحيح ہوتا ہے، اس بيمارى كا علاج كئى ايك طريقوں سے ہو سكتا ہے:

پہلا طريقہ تو شادى ہے اسے شادى كر لينى چاہيے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ كا فرمان ہے:

” جب تم ميں سے كوئى شخص كسى عورت كے محاسن كو ديكھے تو وہ اپنى بيوى كے پاس آئے كيونكہ اس كى بيوى كے ساتھ بھى وہى كچھ ہے جو اس عورت كے ساتھ تھا “

اس سے شہوت ٹوٹ ہو كر عشق كمزور ہو جاتا ہے.

دوم:

اسے نماز پنجگانہ كى پابندى كرنى چاہيے، اور سحرى كے وقت اللہ سے عاجز و انكسارى كے ساتھ دعا كرے، اور نماز پورے خشوع و خضوع اور دل كے ساتھ ادا كرنى چاہيے، اور درج ذيل دعا كثرت سے كيا كرے:

” يا مقلب القلوب ، ثبت قلبي على دينك “

اے دلوں كو الٹنے والے، ميرے دل كو اپنے دين پر ثابت ركھ “

” يا مصرف القلوب صرف قلبي إلى طاعتك وطاعة رسولك “

اے دلوں كو پھيرنے والے، ميرے دل كو اپنى اور اپنے رسول كى اطاعت كى طرف پھير دے”

كيونكہ جب بھى وہ مستقل طور پر ہميشہ عاجزى و انكسارى سے يہ دعا كريگا تو اللہ سبحانہ و تعالى اس كے دل كو اس بيمارى سے پھير دے گا، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 اسى طرح ہم اس سے برائى اور فحاشى كو دور كر ديتے ہيں، يقينا وہ ہمارے مخلص بندوں ميں سے تھا يوسف ( 24 ). انتہى

ماخوذ از: الفتاوى الكبرى لشيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ ( 3 / 77 ).

سوم:

وہ اپنے آپ كو بےپرد عورتوں والى جگہوں سے دور ركھے، اور اسى طرح فحاشى كے ٹى وي چينلوں سے بھى دور رہے جو گندى اور مخرب الاخلاق فلميں اور تصاوير پيش كرتے رہتے ہيں جو دل ميں اثر كر كے اسے كمزور كر ديتى ہيں.

واللہ اعلم.

]]>
https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d8%b9%d9%88%d8%b1%d8%aa%d9%88%da%ba-%d9%83%d9%89-%d8%b7%d8%b1%d9%81-%d8%af%d9%8a%d9%83%da%be%d9%86%db%92-%d9%83%d9%89-%d8%a8%d9%8a%d9%85%d8%a7%d8%b1%d9%89-%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%a7-%d8%b4%d8%ae%d8%b5/feed/ 0
والد کی طرف سے ملنے والے خرچے میں سے زکاۃ دینی ہوگی؟ https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%b7%d8%b1%d9%81-%d8%b3%db%92-%d9%85%d9%84%d9%86%db%92-%d9%88%d8%a7%d9%84%db%92-%d8%ae%d8%b1%da%86%db%92-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%db%92-%d8%b2%da%a9%d8%a7/ https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%b7%d8%b1%d9%81-%d8%b3%db%92-%d9%85%d9%84%d9%86%db%92-%d9%88%d8%a7%d9%84%db%92-%d8%ae%d8%b1%da%86%db%92-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%db%92-%d8%b2%da%a9%d8%a7/#respond Sat, 20 Aug 2022 21:22:01 +0000 https://sabiqooninst.com/?p=7 والد کی طرف سے ملنے والے خرچے میں سے زکاۃ دینی ہوگی؟ Read More »

]]>

سوال: میں ابھی تک پڑھ رہا ہوں، میرا خرچ میرے والد صاحب برداشت کرتے ہیں، چونکہ میرے اخراجات اتنے زیادہ نہیں ہے، -الحمد للہ – تقریبا ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے مجھے یاد نہیں کہ کبھی میرے بٹوے میں پیسے ختم ہوئے ہوں، مجھے لگتا ہے اچھی طرح یاد نہیں ہے، لیکن اس دوران میرے پاس موجود رقم کم زیادہ ہوتی رہتی ہے، میرے والد صاحب مجھے وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ دیتے رہتے ہیں، جسکی وجہ سے میرے پاس موجود رقم کبھی (1000) سعودی ریال سے کم ہوتی ہے، اور کبھی (5000) سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں، تو کیا مجھے اپنے اس جیب خرچ میں سے زکاۃ دینی ہوگی؟ یہ بات علم میں رہے کہ میرے والد صاحب مجھے معین مقدار میں خرچہ نہیں دیتے ، اور نہ اسکے لئے کوئی وقت مقرر ہے، تو میرا سوال یہ ہے کہ:
1-اگر مجھ پر زکاۃ ہے تو میں زکاۃ کا حساب کیسے لگاؤں گا؟
2- کتنی مقدار میں مال جمع ہونے پر ایک سال گزرنے کے بعد اس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے؟

جواب کا متن
الحمد للہ.

اول:

جو شخص نصاب کے برابر نقدی رقم کا با اختیار مالک ہو، اور اس پر ایک سال گزر جائے تو زکاۃ واجب ہو جائے گی۔

اور والد کی طرف سے اپنی اولاد کو دیا جانے والا جیب خرچ اولاد کی ملکیت ہوتا ہے، اولاد اسے کہیں بھی خرچ کرنے کیلئے با اختیار ہوتی ہے، چنانچہ اس پر زکاۃ واجب ہوگی۔

دوم:

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کرنسی نوٹ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہیں تھے، اور علمائے کرام نے ان کرنسی نوٹوں پر زکاۃ سونا اور چاندی پر قیاس کرتے ہوئے بتلائی ہے۔

جبکہ سونے کا نصاب: 85 گرام، اور چاندی کا نصاب 595 گرام ہے۔

چنانچہ کرنسی نوٹ 85 گرام سونے یا 595 گرام چاندی کے برابر ہو جائیں تو کرنسی نوٹوں کا نصاب پورا ہو جائے گا۔

چاندی کی کم قیمت کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنسی نوٹوں کیلئے چاندی کے نصاب کو معیار بنایا جائے گا، کیونکہ یہی محتاط ، اور فقراء کے حق میں بہتر ہے۔

اور چاندی کے آج 12 ربیع الثانی 1428ھ بمطابق 29 اپریل 2007ءکے ریٹ کیمطابق کرنسی نوٹوں کا نصاب تقریبا: 1093 سعودی ریال بنتے ہیں۔

چنانچہ جب آپ اتنی مقدار میں کرنسی کے مالک بن جائیں، اور اس پر ایک سال گزر جائے، اور دوران سال میں آپکے پاس رقم اس مقدار سے کم نہ ہو تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی، جو کہ 2.5٪ ہے۔

اور اگر دوران سال آپکے پاس موجود نقدی رقم نصاب کی مقدار سے کم ہو جائے تو اس میں زکاۃ نہیں ہوگی، حتی کہ دوبارہ سے نصاب مکمل ہو جائے، اور اس وقت نئے سرے سے سال شمار کیا جائے گا۔

اور اگر آپکے پاس موجود رقم میں تھوڑی سی کمی آئی ہے تو محتاط عمل یہی ہے کہ زکاۃ کا مالی سال جاری رکھتے ہوئے زکاۃ ادا کردی جائے، اسکی وجہ یہ ہے کہ سال بھر چاندی کا ریٹ بھی کم زیادہ ہوتا رہتا ہے، ایک جگہ پر نہیں رہتا۔

ہم اس موقع پر آپکے لئے تعریفی کلمات کہنے سے بھی گریز نہیں کرینگے کہ آ پ نے زکاۃ کے بارے میں خصوصی اہتمام کیا، حالانکہ آپ اپنا جیب خرچ اپنے والد سے لیتے ہو، لیکن اسکے باوجود اس میں آپ نے اللہ کے حق کا خیال رکھا، اور اسکے بارے میں شرعی حکم، اور طریقہ کار کے بارے میں پوچھا، جبکہ آج کل بہت سے کروڑ پتی افراد اسلام کے اس رکن سے غفلت کے مرتکب پائے جاتے ہیں، اور اپنے مال کے بارے میں اللہ کا حق جانتے ہی نہیں ، تھوڑا بہت بھی خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں، اور اپنی ساری زندگی لالچ، طمع کرتے ہوئے مال جمع کرنے میں گزار دیتے ہیں، اور جب قیامت کے دن حساب کتاب کا سامنا کرنا پڑے گا تو اسکا یہی مال وخزانہ حسرت و ندامت کا باعث ہوگا۔

اسی بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ [34] يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَـذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ )
ترجمہ: جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے [اے نبی] انہیں آپ درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے، [34] جس دن اس سونے اور چاندی کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوؤں اور کمرکو داغا جائے گا [اور کہا جائے گا]یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا لہذا اب اپنی جمع شدہ دولت کا مزا چکھو۔ التوبة/34-35

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپکے مال میں برکت فرمائے، اور آپکو وسیع پاکیزہ رزق سے نوازے۔

واللہ اعلم.

ا

]]>
https://sabiqooninst.com/2022/08/20/%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%b7%d8%b1%d9%81-%d8%b3%db%92-%d9%85%d9%84%d9%86%db%92-%d9%88%d8%a7%d9%84%db%92-%d8%ae%d8%b1%da%86%db%92-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%db%92-%d8%b2%da%a9%d8%a7/feed/ 0